Saqib Alvi
Tuesday, 10 May 2016
Tuesday, 3 May 2016
نکاح متعہ
تمام علماء اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نکاح موقت یعنی متعہ رسول اللہ ۖ کے دور میں ایک زمانے تک جاری تھالیکن
بعض علماء خلیفہ دوم کے زمانے میں اور بعض عصر پیغمبرۖ میں نکاح موقت)متعہ( کی تحریم کے قائل ہیں اورہم اہلبیت کے چاہنے والے معتقد ہیں کہ یہ نکاح ابھی بھی )اپنے شرائط کے تحت (باقی ہے اور کسی بھی زمانے میںاسے حرام قرار نہیں دیا گیا۔
(ایت اللہ مکارم شیرازی)
فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْہُنَّ فَآتُوْہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَۃ وَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْتُمْ بِہ مِنْم بَعْدِ الْفَرِیْضَۃ إِنَّ اللہ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا
"پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس میں رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یقیناً اللہ بڑا جاننے والا حکمت والا ہے۔" (سورہ نساء :۲۴)
١۔ضرورت اور احتیاج
بہت سے لوگ مخصوصا ًجوانوں کا طبقہ دائمی شادی کرنے سے معذور ہے ، اس لئے کہ دائمی شادی میں اس کے مقدمات کو فراہم کرنا، مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرنا اور دیگر آمادگیوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو بعض جوانوں کے لئے بہت مشکل ہے بعنوان مثال:١۔ بہت سے جوان پڑھائی کے دوران مخصوصا ہمارے دور میں تعلیم کا سلسلہ چونکہ طولانی ہوتاہے لہذا دائمی شادی سے معذور ہوتے ہیں اسلئے کہ ان کے پاس نہ مناسب شغل ہوتاہے نہ ہی کوئی مکان اور نہ ہی شادی کے اخراجات کا انتظام ہوتا ہے، وہ اپنی شادیوں میں جس حدتک بھی اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کریں گے پھر بھی ضروری سامان مہیا کرنے سے بھی معذوررہتے ہیں۔٢۔ کچھ شادی شدہ لوگ ہیں جو بیرون ملک طولانی سفر کی وجہ سے ایک طرف نہ تو اپنی بیویوں کو ساتھ لے جاسکتے ہیں اور نہ ہی دوسری شادی کر سکتے ہیں ، جس کی وجہ سےجنسی محرومیت کا شکارہوجاتے ہیں۔٣۔ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی بیویاں ایسی بیماریوں میں گرفتار ہوگئی ہیں کہ جن سے جنسی خواہش کو پورا نہیں کیا جاسکتا ۔٤۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو فوج میں کام کرتے ہیں جنہیں سرحدوں کی حفاظت اور دیگر ماموریتوں پر طولانی مدت کے لئے بھیج دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ جنسی محرومیت کا شکارہوجاتے ہیں اور اگر ہم صدر اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ مشکل متعہ کی تشریع کا باعث بنی تھی ۔٥۔ کبھی بیوی کے حاملہ ہونے کی وجہ سے ،شوہر اپنی جنسی خواہش کو پورا نہیں کرسکتا یاایسی ہی دوسری مشکلات جو جوانوں کے لئے درپیش ہیں۔ایسی اجتماعی ضرورتیں اور مشکلات ہمیشہ سے تھیں اور رہیں گی جو نہ صرف پیغمبرۖ کے دور سے مخصوص تھیں بلکہ ہمارے دور میں شدید ہوگئی ہیں۔انسان ایسی مشکلات کے سامنے اپنے آپ کو دوراہے پر دیکھتا ہے ؛ وہ یا تو فحشاء میں مبتلا ہوجائے ) العیاذ باللہ ( یا ایک قسم کاوقتی نکاح کرے کہ جس میں ایک طرف دائمی شادی کی مشکلات نہ ہوں اوردوسری طرف جنسی خواہش بھی پوری ہوجائے۔دونوں طریقوں سے چشم پوشی کا مشورہ اچھاضرور ہے لیکن بہت سے لوگوںکے لئے ممکن نہیں ہے بلکہ بعض لوگ اسے محض خیال باطل سمجھتے ہیں کہ جس پر عمل محال ہے۔
نکاح کی دو قسمیں ہیں نکاح دائمی و موقت۔ مذہب جعفریہ کے علماء کا اجماع ہے کہ نکاح متعہ جائز ہے۔ نکاح دائمی و متعہ میں چند چیز مشترک ہیں۔
۱) عورت عاقلہ بالغہ راشدہ اور تمام موانع سے خالی ہو۔
۲) آپس کی رضا کافی نہیں بلکہ صیغہ شرعی پڑھنا ضروری ہے۔
۳) نکاح سے جو چیزیں عورت پر حرام ہو جاتی ہیں ان میں دونوں شریک ہیں
۴) اولاد کے سلسلہ میں دونوں برابر دائمی کی طرح متعہ میں بھی اولاد شوہر کی ہوتی ہے
۵ مہر دونوں میں ضروری ہے متعہ میں مہر کا ذکر نہ ہو تو نکا ح نہیں ہو گا۔
۶) نکاح میں طلاق کے بعد اور متعہ میں مقررہ مدت کے اختتام کے بعد عدت ضروری ہے۔
🔴
عقدِ متعہ اور عقدِ نکاح میں فرق
۱) نکاح متعہ میں مدت کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
۲) مہر۔ نکاح متعہ کا رکن ہے اس کے ذکر کے بغیر نکاح نہیں ہو گا
۳) نکاح دائمی میں نفقہ دینا واجب ہے اور نکاح متعہ میں اگر شرط کر لی جائے تو واجب ہے۔
۴) نکاح دائمی۔ طلاق کے بغیر ختم نہیں ہو تا متعہ۔مدت کے اختتام پر ختم ہو جاتا ہے۔ بہرَ حال دونوں ہی نکاح ہیں دونوں ہی شرعی ہیں
غلط فائدہ لینا
صحیح چیزوں سے غلط فائدہ اٹھانے سے دشمنوں کی زبانیں کھل جاتی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بہانے آجاتے ہیں تاکہ اسے سندبناکر اس کے خلاف پروپیگنڈہ اور اس پر اپنے اعتراضات کی بوچھار کرسکیں۔متعہ انہیں بحثوں کا ایک حصہ ہے ۔نہایت افسوس کے ساتھ یہ حقیقت قبول کرنے پر مجبور ہیں کہ بعض ہوس رانوں نے متعہ جو اجتماعی مشکلات کو حل کرنے کے لئے تھا، اسے اپنے ہاتھوں کا کھلونا بناکر کچھ بے خبر لوگوں کو فرصت دے دی کہ وہ ایسے حکیمانہ حکم پر اپنے اعتراضات کی بارش کریں۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ ا س متعہ کے علاوہ کون سا حکم ہے کہ جس سے غلط فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو اور کون سا ایسا نفیس سرمایہ ہے کہ جسے نااہلوں نے بے جا استعمال نہ کیا ہو ؟!اگر ایک دن قرآن کو نیزوں پر بلند کر کے ظالموں کی حکومت کی توجیہ کی جانے لگے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو ترک کردیا جائے؟یا اگر منافقوںنے مسجد ضرار کی بنیاد ڈالی اور پیغمبر ۖ نے اسے منہدم یا جلا دینے کا حکم دیا تو کیا اس کا مطلب ہے کہ مسجد سے کنارہ کشی کرلی جائے؟بہرحال ہم اس بات کے معترف ہیں کہ بعض اسلامی احکامات سے غلط فائدہ اٹھایا گیا ہےلیکن کبھی بھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم چند بے نمازوں کی وجہ سے مسجد کے دروازوں کو بند کردیں یا ایک رومال کی وجہ سے پورے قیصریہ میں آگ لگادیں۔ہمیں ہوسرانوں کے سامنے دیوار کھڑی کرنی ہوگی اور متعہ کے لئے صحیح تدبیر سوچنی ہوگی ۔مخصوصاًہمارے زمانے میں کسی صحیح تدبیر کے بغیر امکان پذیرنہیں ہے لہذا اس ہدف کےلئے ضروری ہے کہ چند دانشمند حضرات اکٹھاہوں اور اس کے لئے ایک دستور العمل مرتب کریں تاکہ شیطان صفت لوگوں کے ہاتھکٹ جائیں اور اس حکم الہی کی خوبیاں سامنے ابھر کرآئیں تاکہ اس طرح ہوسرانوں اور کینہ
توزوں کے لئے راستہ مسدود ہوجائے۔
#اعتراضات کے جوابات ۔۔
کچھ جذباتی دوست نکاح متعہ کو حرام سمجھنے کی وجہ سے شیعہ مسلمانوں کو کافر قرار دیتے اور ان کے خلاف گالیوں کا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں_ ہم ان حضرت کیلئے کچھ روایات یہاں پیش کر رہے ہیں، تاکہ آئندہ وہ متعہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوۓ ان صحابہ(رض) اور صحابیات(رض) کی توہین کے مرتکب نہ ہوں جنہوں نے اس کو حلال جانا اور انجام دیا:-
١. حضرت جابر بن عبداللہ انصاری(رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عمر(رض) کے زمانے تک متعہ کیا ہے_ صحیح مسلم، جلد ٨، حدیث ٢٤٨٢
٢. کنز العمال، جز السادس عشر، حدیث ٤٥٧١٥: حضرت عمر(رض) نے فرمایا کہ رسول(ص) نے دو طرح کے متعہ کو رواج دیا تھا، میں منع کرتا ہوں اور سزا دوں گا، متعہ الحج اور متعہ النسا_
٣. سوره نسا آیت ٢٤ کی تفسیر میں ابن کثیر نے مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت نکاح متعہ کے سلسلے میں نازل ہوئی_
٤. سوره نسا آیت ٢٤ کی تفسیر میں فخر الدین رازی صحابی رسول حضرت عمران بن حصین(رض) کا قول نقل کرتے ہیں کہ "یہ آیت نکاح متعہ کے بارے میں نازل ہوئی اور اس کی ناسخ آیت نازل نہیں ہوئی_ متعہ کا حکم رسول(ص) نے دیا اور ہم نے کیا_ رسول(ص) نے اپنی وفات سے پہلے منع بھی نہیں کیا_ پھر ایک مرد نے اپنی ذاتی رائے سے جو انکی مرضی میں تھا، کیا"_
5. المصنف میں حافظ ابی بکر عبدالرزاق الصنعانی نے حدیث رقم ١٤٠٢٩ میں حضرت علی(ع) سے نقل کیا ہے کہ اگر حضرت عمر(رض) متعہ سے منع نہ کرتے تو قیامت تک کوئی بدبخت ہی زنا کرتا_
٦. مروج الذہب کی تیسری جلد کے صفحہ ١١٢ میں المسعودی لکھتے ہیں کہ: "حضرت ابن زبیر(رض) نے کہا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو متعہ کے متعلق فتویٰ دیتے ہیں ...... وہ ابن عباس(رض) پر تعریض کر رہے تھے، حضرت ابن عباس نے کہا اے جوان میری طرف متوجہ ہو، متعہ کے متعلق جو تم نے کہا ہے اس کے بارے میں اپنی والدہ(اسما بنت ابو بکر (رض)) سے پوچھ، وہ تمہیں بتاۓ گی کیونکہ متعہ کی پہلی انگیٹھی اس انگیٹھی سے روشن ہوئی جو تمھارے والد اور والدہ کی تھی ...... حضرت ابن زبیر(رض) خاموش ہو کر اپنی والدہ کے پاس گئے اور پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جو کچھ ابن عبّاس(رض) نے کہا وہ درست ہے"_
جو لوگ متعه اور زنا کو ایک سمجهتے هیں ان کا اس بارے میں کیا رای هے که بهت سارے صحابه کرام جو ایک دو نهیں بلکه متعدد هیں خلافت عمر کے دوسرے سال تک اس کا مرتکب هوتا رها کیا وه سب زانی تھے؟ حضرت ابوبکر کی صاحب زادی اور ربیر بن العوام کو یه لوگ کیا کهینگے ؟ عبدالله بن زبیر اور ان کے بهائیوں کو یه حضرات حلال زاده کهینگے یا ؟؟؟
شیعہ روایات
[[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق(ع) سے متعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ(ع) نے فرمایا: قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے کہ "فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيماً حَكِيماً"؛ تو ان میں سے جس کے ساتھ تم متعہ کرو تو [واجب ہے کہ] ان کی اجرتیں جو مقرر ہوں ادا کردو اور کوئی حرج [و گناہ] نہیں کہ اس مقررہ مقدار کے بعد پھر تم آپس میں کوئی سمجھوتہ کرو، [اور رقم کو مفاہمت کے ساتھ کم یا زیادہ کرو] یقینا اللہ جاننے والا ہے، صحیح کام کرنے والا۔[ کلینی،فروع کافی، ج 11، ص7۔
امام صادق(ع) نے فرمایا: امیرالمؤمنین(ع) بارہا فرمایا کرتے تھے کہ "اگر عمر مجھ پر پھیل نہ کرتے [اور اپنی خلافت کے ذریعے متعے پر پابندی نہ لگاتے) تو نہایت شقی اور بدبخت (اور بہت کم) لوگوں کے سوا کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا"۔[کتاب المتعۃ، بقلم: شیخ مفید
ابو حنیفہ نے امام صادق(ع) سے متعہ کے بارے میں سوال کیا تو امام(ع) نے فرمایا: "سبحان اللہ! کیا تم نے [قرآن|کتاب اللہ]] کی تلاوت نہیں کی جہاں ارشاد ہوا ہے کہ "فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةًً؟" تو ابو حنیفہ نے کہا: "خدا کی قسم! گویا میں نے اس آیت کو کبھی پڑھا ہی نہیں!"۔[کلینی،فروع کافی، ج 11
عبداللہ بن عمیر لیثی نے امام باقر(ع) کے پاس آکر پوچھا: "متعہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ تو امام(ع) نے فرمایا: "خداوند متعال نے اس کو اپنی کتاب اور اپنے پیغمبر(ص) کی سنت میں حلال کیا ہے پس تا قیامت حلال ہے۔[کلینی،فروع کافی، ج 11، ص7
طریقہ
۔اگر خود عورت اور مرد چاہیں تو غیردائمی نکاح(نکاح متعہ) کا صیغہ نکاح کی مدت اورمہر معین کرنے کے بعد پڑھ سکتے ہیں۔لہذا اگر عورت کہے "زَوَّجتُکَ نَفسِی فِی المُدَّۃِ المَعلُومَۃِ عَلَی المَھرِ المَعلُومِ" اور اس کے لمحہ بھر بعد مرد کہے"قَبِلتُ" تو نکاح صحیح ہے
صیغہ کیسے پڑھتے ہیں جاننے کے لیے mp3 لنک درج ذیل ہے
https://m.facebook.com/story.php…
اور اگر وہ کسی اور شخص کو وکیل بنائیں اور پہلے عورت کا وکیل مرد کے وکیل سےکہے "زَوَّجتُکَ مُوَکِّلَتِی مُوَکِّلَکَ فِی المُدَّۃِ المَعلُومَۃِ عَلَی المَھرِ المَعلُومِ" اور اس کے بعد مرد کا وکیل توقّف کے بعد کہے۔ "قَبِلتُ التَّزوِیجَ لِمُوَکِّلِی ھٰکَذَا" تو نکاح صحیح ہوگا۔
نکاح کے وقت گواہوں کا ہونا نکاح خواں وغیرہ رجسٹریشن ان سب کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کنواری /باکرہ عورت ولی(باپ یا دادا) کی اجازت کے ساتھ ہی کسی مرد سے نکاح کرسکتی ہے اگر ولی زندہ نا ہو یا عورت بیوہ یا طلاق یافتہ تو پھر کسی کی اجازت ضروری نہیں اس صورت میں لڑکی کی ہی رضا مندی کافی ہے / مزید وضاحت کے لیے اپنے مرجع کی توضیع المسائل کی طرف رجوع کریں /
----------------------------------
جو لوگ نکاح متعہ جسے اللہ نے جائز قرار دیا ۔ کو غلط سمجھتے ہیں وہ اطمنان سے اس مسلے کو سمجھیں اور اللہ کی مخالفت کرنے سے باز رہیں ۔ اور اس ویڈیو کو ملاحظہ فرماءیں ۔۔۔ لنک پر کللک کریں https://web.facebook.com/TSMP110/videos/vb.772493352832332/929629750452024/?type=2&theater¬if_t=video_comment
التماس دعا ثاقب علوی
نوٹ ۔۔۔
مخالفین کے جاہلانہ اعتراضات کے ڈر سے اللہ کے حلال کردہ امور پر خاموشی اختیار کرنا کسی صورت مناسب نہیں ۔ لہذا مومنین سے گزارش ہے کہ اس جائز امر پر خاموشی اختیار مت کریں کہیں ایسا نا ہو کہ مخالفین اپنے جاہلانہ اعتراضات سے کہیں کم علم افراد کو بہکا دیں ۔
True Shia Muslims Pakistan
www.facebook.com/TSMP110https://www.facebook.com/TSMP110/videos/vb.772493352832332/929629750452024/?type=2&theater¬if_t=video_comment
Monday, 2 May 2016
سیدانی کا نکاح غیر سید سے جائز ہے
✔✔ مکمل تحریر ضرور پڑھیں ۔۔۔✔✔✔
اج کل کچھ لوگ سیدہ اور غیر سید کے نکاح کے حوالے سے کافی کنفوز ہیں ۔۔۔ کیوں کہ تمام شیعہ علماء کرام ، مجتہدین مراجع تقلید اس نکاح کو جائز جبکہ کچھ پاکستانی اور ہندوستانی عوام اس کو نا جائز سمجھتے ہیں
اس لئے میں نے سوچا کہ اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے ۔۔
۔
متوجہ ہوں ۔۔
بر صغیر پاک و ہند میں سادات کے حوالے سے رائج دو تعریفیں ۔
۔۔۔۔
نمبر 1 ۔۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سادات فقط وہی ہیں جو بی بی فاطمہ سلام اللہ کی اولاد ہیں
نمبر 2 ۔۔۔ جبکہ باقی کہتے ہیں کہ تمام اولاد بنی ہاشم سادات ہیں۔۔۔
اب ہم سب یہاں پر سادات کی ان دونوں تعریفوں (definitions) کی کو مدنظر رکھتے ہوئے اور عقل انسانی استعمال کرتے ہوئے خود اس سوال کا جواب حاصل کریں گے کہ ایا یہ نکاح جائز ہے یا نا جائز ۔۔۔۔
سب سے پہلے ہم سادات کی تعریف نمبر 1 کو لیتے ہیں ۔۔۔
اگر سید کی تعریف یہ ہو کہ اولاد زھراء سید کہلاتی ہے تو پھر پہلی سید زادی جناب زنیب
کہلاتی ہیں تو پھر پہلی سید زادی جناب زینب سلام اللہ علیہا ہیں اور ان کی شادی جناب عبداللہ سے ہوئی تو جناب عبداللہ چونکہ بی بی زھرا سلام اللہ علیہا کی اولاد نہیں تو لہذا پہلی تعریف کے مطابق وہ سید نہیں ہیں۔ اور وہ غیر سید ہیں تو یہ پہلا نکاح یہ جو ہے جوغیر سید اور سید زادی کا ہوا ۔
۔۔ یعنی اگر تعریف نمبر 1 کو بر حق سمجھا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ کا نکاح غیر سید سے جائز ہے بلکہ سنت آل محمد ۴ ہے ۔۔۔
ایک اور مثال
مقداد بن اسود (غیر سید صحابی) کا ضباعة ابنة الزبير بن عبد المطلب (سید زادی) سے نکاح:
ہماری اہل تشیع کی مستند ترین کتب کتب اربعہ میں سے ایک "اصول کافی " کی حدیث ہے سند کے ساتھ ذرا غور سے پڑہیئے گا:
محمد بن يعقوب ، عن علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن الحسن بن علي بن فضال ، عن ثعلبة بن ميمون ، عن عمرو بن أبي بكار ، عن أبي بكر الحضرمي ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : إن رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) زوج المقداد بن الاسود ضباعة ابنة الزبير بن عبد المطلب ، وانما زوّجه لتتّضع المناكح ، وليتأسّوا برسول الله ( صلى الله عليه وآله ) ، وليعلموا أن أكرمهم عند الله أتقاهم .
ترجمہ: محمد بن یعقوب نے علی بن ابراہیم، نے ابیہ، نے حسن بن علی بن فضال، نے ثعلبہ بن میمون نے عن عمرو بن أبي بكار نے عن أبي بكر الحضرمي نے عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) سے روایت کی کہ : رسول (ص) نے مقداد بن اسود کا نکاح ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب سے کروایا، اور یہ نکاح اس لیئے کروایا تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ تم میں سے افضل وہ ہے جو متقی ہے۔ (نہ کہ قریشی یا ھاشمی )
حوالہ جات:
اصول کافی جلد 5 صفحہ 344
اور جن کو شک ہے وہ اس لنک پر کلک کر کے وسائل شیعہ جو کہ ایک اور مستند شیعہ کتاب ہے میں اس روایت کو دیکھ لیں: اس لنک پر کلک فرمائیں http://alkafeel.net/islamiclibrary/hadith/wasael-20/wasael-20/v04.html
اب ہم سادات کی تعریف نمبر 2 لیتے ہیں
اگر سید کی تعریف یہ ہو کہ اولاد حضرت جناب ھاشم سید کہلاتی ہے تو پھر جناب زینب بنت جحش جو رسول اللہ’ کی کزن اور ہاشمیہ و سیدہ تھیں جن کا نکاح ایک غلام سے ہو اجو کافر سے مسلمان ہوا تھا وہ قریشی اور ہاشمی بھی نہیں تھا۔ اب یہاں پر بھی غیر سید کا سید زادی سے نکاح ہوا ۔
اس تعریف کے مطابق بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیدہ کا نکاح غیر سید مرد سے جائز ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور مسلہ پر میں تھوڑی وضاحت شیعہ تاریخ کے کی نظر میں کرنا چاہوں گا
۔۔ بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ امام موسی کاظم ع کی بیٹیوں س کی شادی اس لئے نا ہو پائی کہ امام موسی کاظم ع نے منع کیا تھا کہ غیر سید سے شادی نہیں کرنا
جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں اور ایسی سوچ کو آئمۂ ع سے منسوب کرنا جہالت کے سوا اور کچھ نہیں
کیونکہ ائمہ ع ہمیشہ سے ہمیں یہی بتاتے ائے کہ فضیلت کا میعار فقط تقوی ہے تو کیسے ممکن کہ ائمہ ع تقوی کی بجائے نسل کی شرط عائد کردیں
۔۔۔ اس غلط فہمی پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ امام موسی کاظم ع کے دور میں کیا کوئی بھی سید لڑکا نا تھا ؟؟؟۔
امام موسی کاظم ع سے پہلے والے ائمہ ع کی کیا کوئی اولادیں نہیں تھیں ؟؟؟
حقیقت تو یہ ہے کہ اس دور میں لوگ کو اجازت نہیں تھی کہ وہ امام موسی کاظم ع کے گھرانے سے کوئی تعلق رکھیں اور جو تعلق رکھنے کا سوچتا بھی تو ظالم حکومت کی جانب سے موت کے سوا کچھ نا ملتا یہی وجہ ہے کہ امام موسی کاظم ع کی سیدانیوں کے رشتے نا ہو پائے
۔۔۔۔ ہمارے تمام شیعہ فقہا کا نظریہ
تمام شیعہ فقہا نے اس نکاح کو جائز اور قرآن سنت کے مطابق کہا ہے اور ہمارے بیشمار ایسے شیعہ فقہا ہیں اور گزرے ہیں کہ جنہوں اپنی سیدہ بیٹیوں کی شادی غیر سید مردوں سے کی
ہم یہاں یہ نہیں کہہ رہے کہ سیدانیوں کی نکاح لازمی طور پر غیر سید لوگوں سے کیے جائیں ۔ بلکہ ہم یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اپنے لخت جگر کو کسی ایسے شخص سے رشتہ ازدواج میں منسلک کیا جائے جو دین دار ہو اور محمد و آل محمد کا محب ہو
ناکہ اس چکر میں پڑے رہیں کہ سید سے کرنی ہے یا غیر سید سے
اور کسی مرجع تقلید نے اس قسم کی ازدواج کو حرام قرار نہیں دیا ہے
جیے کہ ایت اللہ سیستانی ، ایت اللہ خامنہ ای ، ایت اللہ خمینی ۔ ایت اللہ صافی گلپائیگانی ۔ ایت اللہ سید الخوِئی ۔ ایت اللہ نشیر حسین نجفی ۔ حتکہ تمام ۔۔۔۔۔۔۔۔ کا یہی نظریہ ہے
اب ہر بات بالکل واضح ہے جس کو با آسانی پڑھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ اور اس تحریر کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی عقل مند با آسانی اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ ایا یہ نکاح جائز ہے یا نہیں ۔۔۔
میں نے اس پوسٹ میں نا تو کسی شخص پر اور نا ہی کسی سید یا غیر سید پر تنقید کی ہے اور نا ہی کوئی فتویٰ پیش کیا ہے
بلکہ کچھ علمی دلائل پیش کئے ہیں جس سے اپ کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔۔
تمام سادات و غیر سادات ہمارے لے قابل احترام ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل فقط وہی ہے جو متقی ہے اور یہ ہی اللہ ۔ محمد وال محمد کا فیصلہ ہے ۔
اس معاملے میں اگر محمحد و ال محمد کی فرامین کو دیکھا جائے تو یہی ملتا ہے کہ
'' لڑکی سیدہ ہو یا غیر سید ۔ اس کا نکاح ہمیشہ کسی ایسے شخص سے ہونا چاہئے جو نیک ۔ باکردار ۔ با تمیز ۔ بااخلاق ۔ با ادب ہو اور عورت کی جائز ضروریات کو پورا کرنے پر قادر ہو ""
..............
اس موضوع پر مزید علمی دلائل جاننے کے لیے یہ ویڈیو ضرور ملاحظہ کیجیے ۔ ویڈیو دیکھنے کے لیے لنک پر کلک کریں
https://vimeo.com/56413820
تحریر ۔۔۔۔۔۔ ثاقب علوی
منجانب (ٹرو شیعہ مسلمز پاکستان )
True Shia Muslims Pakistan
www.facebook.com/TSMP110
اپ ہمارا علمی فیس بک گروپ بھی جوائن کرسکتے ہیں
True Shia Muslims
https://www.facebook.com/groups/trueshiamuslims/
اس پوسٹ کو شئر کریں تاکہ یہ پیغام تمام مومنین تک پہنچ سکے ۔ جو مومنین اس تحریر کو کاپی کرنا چاہتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو کاپی ضرور کریں مگر ایک لفظ کی بھی کمی بیشی نا کی جائے ورنہ یہ علمی خیانت تصویر کی جائے گی ۔
اللھم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجہم
اج کل کچھ لوگ سیدہ اور غیر سید کے نکاح کے حوالے سے کافی کنفوز ہیں ۔۔۔ کیوں کہ تمام شیعہ علماء کرام ، مجتہدین مراجع تقلید اس نکاح کو جائز جبکہ کچھ پاکستانی اور ہندوستانی عوام اس کو نا جائز سمجھتے ہیں
اس لئے میں نے سوچا کہ اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے ۔۔
۔
متوجہ ہوں ۔۔
بر صغیر پاک و ہند میں سادات کے حوالے سے رائج دو تعریفیں ۔
۔۔۔۔
نمبر 1 ۔۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سادات فقط وہی ہیں جو بی بی فاطمہ سلام اللہ کی اولاد ہیں
نمبر 2 ۔۔۔ جبکہ باقی کہتے ہیں کہ تمام اولاد بنی ہاشم سادات ہیں۔۔۔
اب ہم سب یہاں پر سادات کی ان دونوں تعریفوں (definitions) کی کو مدنظر رکھتے ہوئے اور عقل انسانی استعمال کرتے ہوئے خود اس سوال کا جواب حاصل کریں گے کہ ایا یہ نکاح جائز ہے یا نا جائز ۔۔۔۔
سب سے پہلے ہم سادات کی تعریف نمبر 1 کو لیتے ہیں ۔۔۔
اگر سید کی تعریف یہ ہو کہ اولاد زھراء سید کہلاتی ہے تو پھر پہلی سید زادی جناب زنیب
کہلاتی ہیں تو پھر پہلی سید زادی جناب زینب سلام اللہ علیہا ہیں اور ان کی شادی جناب عبداللہ سے ہوئی تو جناب عبداللہ چونکہ بی بی زھرا سلام اللہ علیہا کی اولاد نہیں تو لہذا پہلی تعریف کے مطابق وہ سید نہیں ہیں۔ اور وہ غیر سید ہیں تو یہ پہلا نکاح یہ جو ہے جوغیر سید اور سید زادی کا ہوا ۔
۔۔ یعنی اگر تعریف نمبر 1 کو بر حق سمجھا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ کا نکاح غیر سید سے جائز ہے بلکہ سنت آل محمد ۴ ہے ۔۔۔
ایک اور مثال
مقداد بن اسود (غیر سید صحابی) کا ضباعة ابنة الزبير بن عبد المطلب (سید زادی) سے نکاح:
ہماری اہل تشیع کی مستند ترین کتب کتب اربعہ میں سے ایک "اصول کافی " کی حدیث ہے سند کے ساتھ ذرا غور سے پڑہیئے گا:
محمد بن يعقوب ، عن علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن الحسن بن علي بن فضال ، عن ثعلبة بن ميمون ، عن عمرو بن أبي بكار ، عن أبي بكر الحضرمي ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : إن رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) زوج المقداد بن الاسود ضباعة ابنة الزبير بن عبد المطلب ، وانما زوّجه لتتّضع المناكح ، وليتأسّوا برسول الله ( صلى الله عليه وآله ) ، وليعلموا أن أكرمهم عند الله أتقاهم .
ترجمہ: محمد بن یعقوب نے علی بن ابراہیم، نے ابیہ، نے حسن بن علی بن فضال، نے ثعلبہ بن میمون نے عن عمرو بن أبي بكار نے عن أبي بكر الحضرمي نے عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) سے روایت کی کہ : رسول (ص) نے مقداد بن اسود کا نکاح ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب سے کروایا، اور یہ نکاح اس لیئے کروایا تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ تم میں سے افضل وہ ہے جو متقی ہے۔ (نہ کہ قریشی یا ھاشمی )
حوالہ جات:
اصول کافی جلد 5 صفحہ 344
اور جن کو شک ہے وہ اس لنک پر کلک کر کے وسائل شیعہ جو کہ ایک اور مستند شیعہ کتاب ہے میں اس روایت کو دیکھ لیں: اس لنک پر کلک فرمائیں http://alkafeel.net/islamiclibrary/hadith/wasael-20/wasael-20/v04.html
اب ہم سادات کی تعریف نمبر 2 لیتے ہیں
اگر سید کی تعریف یہ ہو کہ اولاد حضرت جناب ھاشم سید کہلاتی ہے تو پھر جناب زینب بنت جحش جو رسول اللہ’ کی کزن اور ہاشمیہ و سیدہ تھیں جن کا نکاح ایک غلام سے ہو اجو کافر سے مسلمان ہوا تھا وہ قریشی اور ہاشمی بھی نہیں تھا۔ اب یہاں پر بھی غیر سید کا سید زادی سے نکاح ہوا ۔
اس تعریف کے مطابق بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیدہ کا نکاح غیر سید مرد سے جائز ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور مسلہ پر میں تھوڑی وضاحت شیعہ تاریخ کے کی نظر میں کرنا چاہوں گا
۔۔ بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ امام موسی کاظم ع کی بیٹیوں س کی شادی اس لئے نا ہو پائی کہ امام موسی کاظم ع نے منع کیا تھا کہ غیر سید سے شادی نہیں کرنا
جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں اور ایسی سوچ کو آئمۂ ع سے منسوب کرنا جہالت کے سوا اور کچھ نہیں
کیونکہ ائمہ ع ہمیشہ سے ہمیں یہی بتاتے ائے کہ فضیلت کا میعار فقط تقوی ہے تو کیسے ممکن کہ ائمہ ع تقوی کی بجائے نسل کی شرط عائد کردیں
۔۔۔ اس غلط فہمی پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ امام موسی کاظم ع کے دور میں کیا کوئی بھی سید لڑکا نا تھا ؟؟؟۔
امام موسی کاظم ع سے پہلے والے ائمہ ع کی کیا کوئی اولادیں نہیں تھیں ؟؟؟
حقیقت تو یہ ہے کہ اس دور میں لوگ کو اجازت نہیں تھی کہ وہ امام موسی کاظم ع کے گھرانے سے کوئی تعلق رکھیں اور جو تعلق رکھنے کا سوچتا بھی تو ظالم حکومت کی جانب سے موت کے سوا کچھ نا ملتا یہی وجہ ہے کہ امام موسی کاظم ع کی سیدانیوں کے رشتے نا ہو پائے
۔۔۔۔ ہمارے تمام شیعہ فقہا کا نظریہ
تمام شیعہ فقہا نے اس نکاح کو جائز اور قرآن سنت کے مطابق کہا ہے اور ہمارے بیشمار ایسے شیعہ فقہا ہیں اور گزرے ہیں کہ جنہوں اپنی سیدہ بیٹیوں کی شادی غیر سید مردوں سے کی
ہم یہاں یہ نہیں کہہ رہے کہ سیدانیوں کی نکاح لازمی طور پر غیر سید لوگوں سے کیے جائیں ۔ بلکہ ہم یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اپنے لخت جگر کو کسی ایسے شخص سے رشتہ ازدواج میں منسلک کیا جائے جو دین دار ہو اور محمد و آل محمد کا محب ہو
ناکہ اس چکر میں پڑے رہیں کہ سید سے کرنی ہے یا غیر سید سے
اور کسی مرجع تقلید نے اس قسم کی ازدواج کو حرام قرار نہیں دیا ہے
جیے کہ ایت اللہ سیستانی ، ایت اللہ خامنہ ای ، ایت اللہ خمینی ۔ ایت اللہ صافی گلپائیگانی ۔ ایت اللہ سید الخوِئی ۔ ایت اللہ نشیر حسین نجفی ۔ حتکہ تمام ۔۔۔۔۔۔۔۔ کا یہی نظریہ ہے
میں نے اس پوسٹ میں نا تو کسی شخص پر اور نا ہی کسی سید یا غیر سید پر تنقید کی ہے اور نا ہی کوئی فتویٰ پیش کیا ہے
بلکہ کچھ علمی دلائل پیش کئے ہیں جس سے اپ کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔۔
تمام سادات و غیر سادات ہمارے لے قابل احترام ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل فقط وہی ہے جو متقی ہے اور یہ ہی اللہ ۔ محمد وال محمد کا فیصلہ ہے ۔
اس معاملے میں اگر محمحد و ال محمد کی فرامین کو دیکھا جائے تو یہی ملتا ہے کہ
'' لڑکی سیدہ ہو یا غیر سید ۔ اس کا نکاح ہمیشہ کسی ایسے شخص سے ہونا چاہئے جو نیک ۔ باکردار ۔ با تمیز ۔ بااخلاق ۔ با ادب ہو اور عورت کی جائز ضروریات کو پورا کرنے پر قادر ہو ""
..............
اس موضوع پر مزید علمی دلائل جاننے کے لیے یہ ویڈیو ضرور ملاحظہ کیجیے ۔ ویڈیو دیکھنے کے لیے لنک پر کلک کریں
https://vimeo.com/56413820
تحریر ۔۔۔۔۔۔ ثاقب علوی
منجانب (ٹرو شیعہ مسلمز پاکستان )
True Shia Muslims Pakistan
www.facebook.com/TSMP110
اپ ہمارا علمی فیس بک گروپ بھی جوائن کرسکتے ہیں
True Shia Muslims
https://www.facebook.com/groups/trueshiamuslims/
اس پوسٹ کو شئر کریں تاکہ یہ پیغام تمام مومنین تک پہنچ سکے ۔ جو مومنین اس تحریر کو کاپی کرنا چاہتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو کاپی ضرور کریں مگر ایک لفظ کی بھی کمی بیشی نا کی جائے ورنہ یہ علمی خیانت تصویر کی جائے گی ۔
اللھم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجہم
Subscribe to:
Comments (Atom)





